*وہ حیدرآبادی جس نے حرم
کعبہ میں نماز پڑھائی*
____________س۔م۔احمد_____________
حضرت علامہ مفتی محمد
رحیم الدین صاحب ولد محمد سراج الدین صاحب کی ولادت بروز چہارشنبہ 7/ ربیع الاخر
1311 ھ کو حیدرآباد میں ہوئی۔
آپ کے والد فوج میں
افسر تھے۔ ابتدائی تعلیم آسمان جاہی مدرسہ میں ہوئی اور بعد ازاں جامعہ نظامیہ میں
داخل ہوئے۔
مفتی صاحب قبلہ طویل
القامت لیکن میانی نظر آتے تھے، ورزشی جسم، گھنی داڑھی، سفید عمامہ باندھتے اور
بائیں کاندھے پر سفید رومال ڈالا کرتے تھے، گفتگو سلیس و شائستہ ہوتی، جو ایک دفعہ
آپ سے ملتا آپ کا گرویدہ ہوجاتا۔
آپ اپنی وضع و قطع اور
علمی مقام کے باوجود نہایت منکسر المزاج تھے۔
اپنے قریبی لوگوں کو
چائے وغیرہ پلایا کرتے، نہ صرف اتنا ہی بلکہ آنے جانے کیلئے سواری خرچ بھی دیا
کرتے تھے۔
ایک دفعہ حضرت مولانا
سید قطب الدین حسینی چشتی صاحب قبلہ جو امیر جامعہ تھے کی دعوت پر خانقاہ عالیہ
حضرت شاہ خاموش علیہ الرحمہ گئے، تناول ما حضر سے فارغ ہوئے تو مولانا قطب الدین
چشتی صاحب نے کہا کہ حضرت جسمانی غذا تو ہو گئی، اب روحانی غذا کا انتظام ہے (
یعنی محفل سماع تیار ہے). تو مفتی صاحب نے نہایت سادگی سے کہا کہ *"میں اس کا
اہل نہیں ہوں"* ( اس میں دو باتیں ہو سکتی ہیں، ایک یا تو آپ اپنے پیر و مرشد
حضرت بانئ جامعہ نظامیہ کی طرح تنہائی میں سماع کو پسند کرتے تھے ہوں گے یا پھر نہ
اقرار کنیم نہ انکار کنیم والی صوفیہ کی جماعت سے تعلق رکھتے تھے ہوں گے)۔
آپ نے 27/ رمضان 1334 ھ
کو شیخ الاسلام بانئ جامعہ نظامیہ کے دست حق پرست پر سلسلہ قادریہ میں بیعت کی۔
بانئ جامعہ نظامیہ کی
طرح تعلیمی فراغت کے بعد خلاصہ نویسی کیلئے صدارت العالیہ میں ملازم ہوئے پھر شہر
کے مفتی منتخب ہوئے۔ بعد ازاں جامعہ نظامیہ کے معتمد کی ذمہ داری سونپی گئی۔ آپ کا
یہ تاریخی عہد تھا جس میں جامعہ نظامیہ جو کہ مدرسہ نظامیہ کہلاتا تھا مدرسے کی
بجائے جامعہ کا اعزاز حاصل کیا اور جامعہ نظامیہ پکارا جانے لگا۔
جامع مسجد چوک میں نماز
عصر مغرب اور عشاء پابندی سے ادا کیا کرتے تھے اور جمعہ و عیدین کیلئے بالخصوص مکہ
مسجد اپنے بچوں بھائیوں اور بھانجوں بھتیجوں کے ساتھ جایا کرتے تھے۔
معتمد جامعہ، شیخ
الجامعہ، شیخ التفسیر، شیخ الفقہ اور صدر مفتی جیسے عہدہ جلیلہ پر بھی فائز رہے۔
آپ نواب دکن میر عثمان
علی خان صاحب کے دونوں فرزندوں اعظم جاہ اور معظم جاہ صاحبان کے استاد بھی تھے،
علاوہ ازیں شیخ الاسلام حضرت سید محمد بادشاہ حسینی لئیق رحمہ اللہ، مولانا فرید
پاشاہ صاحب رحمہ اللہ، مولانا مخدوم بیگ الہاشمی رحمہ اللہ، حضرت مولانا مفتی محمد
عظیم الدین صاحب قبلہ، شیخ الفقہ مولانا مفتی ابراہیم خلیل الہاشمی رحمہ اللہ، صدر
الشیوخ علامہ طاہر الرضوی القادری رحمہ اللہ، شیخ الحدیث مولانا خواجہ شریف رحمہ
اللہ وغیرہ سب آپ کے تلامذہ ہیں۔
حضرت مفتی صاحب قبلہ
بانئ جامعہ نظامیہ کی طرح اصلاحی فکر رکھتے تھے اس لیے آپ بہت ساری تنظیموں سے
وابستہ ہوئے مثلاً مجلس انتظامی جامعہ نظامیہ کے علاوہ احیاء المعارف النعمانیہ،
مجلس علمائے دکن ( جو اس وقت صدر مجلسِ علماء دکن یا مرکزی رؤیت ہلال کمیٹی
حیدرآباد دکن سے مشہور ہے اور حیدرآباد دکن میں خاص طور سے رؤیت ہلال کی ذمہ داری
بحسن و خوبی بلا معاوضہ ادا کرتے آ رہی ہے ) کے اساسی رکن تھے، اور غلاف کعبہ کی
تیاری کی جو حیدرآباد میں کمیٹی تھی اس کے بھی رکن تھے۔
آپ کو کتابوں سے نہایت
لگاؤ تھا، آپ نے ایک مقالہ حضرت بانئ جامعہ نظامیہ کی سیرت پر اور دستیاب کتب میں
فتاویٰ صدارت العالیہ مرتب کی۔ اور اس کے علاوہ صفة الحج کے نام سے حجاج و معتمرین
کیلئے بہترین کتاب رقم فرمائی ہے، مجھے بہت سارے لوگوں نے کہا کہ ہم کو فلاں مسئلے
میں شک تھا، دیگر کتابوں سے رہبری لی مگر حضرت کی کتاب سے تفہیم ہو گئی۔
آپ 2/ دفعہ حج و زیارت
سے شرف یاب ہوئے۔
آپ جب حج کو گئے تو
علماء کی بڑی جماعت نے آپ سے استفادہ کیا اور آپ نے بھی وہاں کے علماء سے استفادہ
کیا، اور مقامات مقدسہ میں آپ کو بلکہ سارے شہر حیدرآباد و ریاست دکن کو جو عظیم
شرف و سعادت حاصل ہوئی وہ یہ تھی کہ علماء عرب نے حرم کعبہ میں امامت کیلئے آپ کو
مستحق سمجھا اور رسول عربی صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان *"کسی عربی کو عجمی
پر فوقیت نہیں مگر متقی کو"* کی تاریخی مثال پیش کرتے ہوئے آپ کو مصلی امامت
پر کھڑا کر دیا، جب آپ نے مسجد الحرام میں نماز مغرب کی امامت فرمائی تو مقتدیوں
میں عجم و عرب کے رؤسا علماء صوفیہ سبھی شریک تھے، سب مصلی بالخصوص اہل علم آپ کے
انداز تلاوت اور حسن ادائیگی پر فدا ہو رہے تھے۔
مولانا پروفیسر ڈاکٹر
سلطان محی الدین صاحب رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ *"میں نے عرب و عجم کے علماء و
قراء کی اقتداء کی ان کی قرآت سنی لیکن حضرت مولانا مفتی رحیم الدین صاحب قبلہ کا
انداز تلاوت سب سے منفرد تھا، جب ان سے تلاوت سنو تو دل بھر آتا ہے اور مزید سماعت
کی آرزو رہتی ہے"۔*
پروفیسر ڈاکٹر سلطان
محی الدین صاحب قبلہ رحمہ اللہ نے یہ واقعہ بھی اپنی کتاب میں نقل کیا ہے
جب میں طالب علم تھا اس
وقت کا واقعہ ہے کہ میں نے دیکھا کہ جامعہ نظامیہ کے سالانہ تقسیم اسناد کے جلسے
میں آپ نے نماز مغرب کی امامت فرمائی، آپ نے سورہ فاتحہ کے بعد سورہ نور کی آیات
اللَّهُ نُورُ
السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ تلاوت فرمائی جب آپ لّا شَرْقِيَّةٍ وَلَا غَرْبِيَّةٍ
پر پہنچے تو مصلیوں کی آہیں نکل گئیں اور گویا کہ صفیں ہل گئیں، ان مصلیوں میں آپ
کے تلمیذ شیخ الاسلام سید محمد بادشاہ حسینی رحمہ اللہ بھی شریک تھے، آپ کی تلاوت
میں وہ تاثیر تھی کہ سامع کو قرآن کا شیدائی بنا دیتی اور اللہ سے تعلق کو مضبوط
کر دیتی۔
حضرت علامہ مفتی رحیم
الدین صاحب قبلہ داماد ہیں حضرت علامہ محمد یعقوب صاحب رحمہ اللہ محدث کے جنہیں
بانئ جامعہ نظامیہ نے اپنے ادارے جامعہ نظامیہ میں درس حدیث کیلئے دارالعلوم
دیوبند سے طلب کیا، اور اونہوں نے آخر دم تک بانئ جامعہ نظامیہ کے حکم پر جامعہ
نظامیہ میں استاد حدیث کی حیثیت سے خدمات انجام دیں، جن کے علم وفضل سے ہر فرد
واقف ہے۔ اور فقیہ العصر مفتی اعظم ہند بقیة السلف حضرت علامہ مفتی محمد عظیم
الدین صاحب قبلہ مدظلہ العالی جو آج بحیثیت صدر مفتی دار الافتاء جامعہ نظامیہ
صاحب مسند ہیں وہ انہیں حضرت علامہ قاری مفتی محمد رحیم الدین صاحب قبلہ رحمہ اللہ
کے برادر زادہ و تلمیذ خاص اور داماد ہیں، ملک و بیرون ملک کے کبار علماء مشائخ
شرعی مسائل کے حل کیلئے اگرچہ اپنا اجتہاد رکھتے ہوں لیکن تصدیق و تسکین کا ان
سبھوں کیلئے آپ مرجع و مرکز ہیں۔
مزید بہت کچھ قابلِ ذکر
واقعات و خدمات ہیں۔ اسے ہم اپنی آنے والی کتاب کیلئے بچا کر رکھتے ہیں تب تک کیلئے دعاؤں کا ملتمس
تحریر : س۔م۔احمد 9553010209
فون : 9848615340
Comments
Post a Comment